Fakhr-e-Faisalabad

News Website

مسلم لیگ ن کی شکست وجوہات تحریر …شوکت عزیز سلطان بٹ

مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی اکثریت اپنی انتخابی مہم موثر طریقہ سے نہ چلانے اور کارکنوں سے عدم رابطہ کے باعث شکست سے ہمکنار ہوئے ہیں ،امیدواروں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم تو الیکشن سے قبل ہی جیت چکے ہیں ،ہمیں رسمی طورپر انتخابی مہم چلانے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے شکست ان کا مقدر بن گئی ،کیونکہ انہوںنے نظریاتی کارکنوں کو ناصرف نظر انداز کیا بلکہ ان سے رابطہ کر نے کی بجائے چیئرمینوں اور وائس چیئر مینوں کے ڈیرو ں ہی کو مرکز نظر بنائے رکھا ،امیدواروں کی اکثریت کی یہ سوچ تھی کہ ہمیں نظریاتی کارکنو ںکی بجائے چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں اور بااثر افراد ہی ایسے ہیں جن سے ملاقات کی ضرور ت ہے اور کسی بھی یونین کونسل میں رابطہ مہم یا میٹنگز کر نے اور انتخابی دفاتر کھولنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ اگر کسی کارکن نے اپنی عزت کی خاطر اپنے گھر میں میٹنگ بلالی تو امیدوار خود اس میٹنگ میں تشریف نہ لائے بلکہ اپنے بیٹے یا بھائی کو بھیج دیا جسکی وجہ سے کارکنو ں کی اکثریت بددل ہوگئی اور انہوں نے بھی دلجمی سے انتخاب لڑنے اور ووٹرز کو گھرو ں سے نکالنے میں بھی کوئی دلچسپی نہ لی ،امیدوار محض اس وجہ سے کارکنوں کی میٹنگ میں سے اس وجہ نہ جاتے کہ کارکن ان سے اپنے مسائل کے حل کا مطالبہ کرتے ہیں ،انکی یہ خام خیالی ہی انکو لے ڈوبی اور وہ نظریاتی کارکنوں کے ہمراہ ڈور تو ڈور انتخابی مہم چلانے سے گریزاں رہے اور یہی غفلت انکی شکست کا سبب بنی ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریاتی کارکنوں سے رابطے کو بڑھایا جائے تاکہ مستقبل میںمثبت اثرات پیدا ہوں ،مسلم لیگ ن کی ار سر نو تنظیم سازی کی جائے ،نظریاتی اور پرانے کارکنوں کی تنظیمی عہدوں پر تعینات کیاجائے تاکہ آئندہ الیکشن میں پارٹی سرگرمیوں میں فعال اور نظریاتی کارکن ہی موثر کردار ادا کرسکیں 8فروری 2024ء کے انتخابات میں امیدواروں نے انجمن تاجران کے عہدیداروں اور گھنٹہ گھر کے ارد گر د ،ستیانہ روڈ ،جڑنوالہ روڈ ،غلام محمد آبا د سمیت دیگر علاقوں میں تاجروں کو ہی مرکز نگاہ بنائے رکھا جبکہ کارکنوں کی اکثریت اپنے اپنے بلدیاتی حلقوں اور محلوں میں امیدواروں کے منتظر ہی رہے کسی بھی امیدوار نے کسی بھی بلدیاتی حلقہ میں اپنے انتخابی دفتر نہ بنائے ،ماضی میں میاں نواز شریف کو مسلم لیگ یوتھ ونگ کے نام پر نوجوانوں کی ایک منظم اور موثر تنظیم میسر تھی جنہوںنے میاں نواز شریف کی حمایت میں قرآن پاک پر حلف دے رکھا تھا ،چوہدری شیر علی کی قیادت میں بننے والی مسلم لیگ یوتھ ونگ جس کے روح رواں میا ںغلام حسین شاہد کی قیادت میں میاں عبدالرشید ،شاہد محمود بیگ ،اکبر غوری ،فیاض گوندل ،عصمت اکرام ،فرید اللہ خٹک ،مسلم عسکری ،شیخ طارق محمود ،شوکت سلطان بٹ ،ملک شاہد ،معراج شاہد ،نور حسین نوری ،چاچا یونس ،ملک منصور ،امین گجر ،گلزار بگا ،غلام فرید انصاری ،استاد ناصر حمید اعوان ،ندیم مغل اعوان ،راجہ جانی ،ماجد حسین ،صفدر انصاری ،ماسٹر خالق ،الیاس انجم ،عارف ڈوگر دیگر سینکڑوں ایسے کارکنوں کی فوج ظفر موج موجود تھی جس نے ہر کڑے وقت پر میاں نواز شریف کا ساتھ دیا ،تحریک نجات میں ملک بھر سے سینکڑوں نوجوانوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ،مسلم لیگ کے کارکنوں نے نواز شریف کی حمایت میں خیبر سے کراچی تک ٹرین مارچ کرکے مسلم لیگ کے لیے پورے پاکستان میں سوفٹ کارنر پیداکیا ،8فروری 2024ء کو ملک بھر میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی شکست کودیکھتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگی امیدوار گھر بیٹھے ہی جیتے ہوئے تھے ،انہوںنے کارکنوں سے روابط بڑھانے ،موثر انداز میں انتخابی مہم چلائے بغیر ہی اپنے آپ کو ممبران قومی وصوبائی اسمبلی سمجھ لیا اور انتخابی مہم کو دلجمی کی بجائے اپنا سرمایہ بچاتے ہوئے موثر انداز میں انتخابی مہم نہیں چلائی اور الیکشن میں بری طرح ہار گئے ،لیگی کارکنوں کی اکثریت کامیاں نواز شریف سے مطالبہ ہے کہ تنظیم کو ایم این اے ،ایم پی اے کے تسلط سے پاک کرکے نظریاتی اور پرانے کارکنوں کو ایڈجسٹ کیا جائے تاکہ مسلم لیگ ایک سٹریٹ پاور بن کر ابھرسکے

About The Author