عوام کے درپیش مسائل حل کیوں نہیں ہوپاتے ھیں ؟ دھندہ ھے پر گندا ھے ۔
عوامی عدالت
طارق محمود جہانگیری کامریڈ
میرے ایک دیرنیہ دوست ھیں جن کا تعلق میرے حلقہ اربابِ ادب سے ھے ، ایک اور قریبی دوست ھیں ۔ پیشہ کے اعتبار سے نامور وکیل ھیں ھائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکالت کیا کرتے ہیں ۔ان دونوں دوستوں کا شمار ترقی پسند دانشوروں میں ھوتا ھے۔ بڑے صاحب علم اور وسیع القلب ھیں ۔ آئینی و قانونی امور پر ان دونوں کو بڑی دسترس حاصل ھے ۔ گزشتہ روز ایڈوکیٹ دوست نے ایک بڑا ھی دلچسپ سبق آموز واقعہ سنایا ۔ جس نے میرے چودہ طبق روشن کر دیئے ۔ ایک نئی سوچ بیدار کی۔ ایک اھم ترین بنیادی مسلہء کی جانب سوچنے کی دعوت فکر دی ، جس کی طرف میں نے سوچنے کی کبھی زحمت گوارہ نہیں کی تھی ۔ دوسرے اھل سیاست دوستوں کی طرح میں بھی غفلت کی نیند سویا ھوا تھا ۔ میرے ایڈوکیٹ دوست نے بتایا کہ میرے وکیل دوست نے ساری عمر وکالت کی جب انہوں نے بڑھاپے کی وجہ سے جسمانی و ذہنی کمزوری محسوس کی تو یاداشت کمزور ھونے کے پیش نظر وکالت سے دستبرداری اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اپنے سارے مقدمات ایڈوکیٹ بیٹے کو دے دیئے جو کہ اب خود بھی ایک نامور وکیل بن چکا ھے۔ چند ماہ بعد ان کے وکیل بیٹے نے ایک مقدمے کی فائل اپنے ایڈوکیٹ والد کے سامنے پیش کی اور کہا کہ آپ ساری عمر یہ مقدمہ لڑتے رہے مگر مقدمہ نہ جیت سکے اور میں نے چھ ماہ میں ہی یہ مقدمہ جیت لیا ھے۔ ایڈوکیٹ والد نے ایک اچٹتی ہوئی نظر فائل پر ڈالی اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ اپنے ایڈوکیٹ والد کی اس نظر اندازی پر بیٹے کو بہت غصہ آیا تو اس نے اپنے ایڈوکیٹ والد جس نے بڑھاپے اور ملک کے فرسودہ عدالتی نظام سے مایوس ہوکر وکالت کا پیشہ ترک کر دیا تھا ان سے کہا کہ اگر آپ اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں کر سکتے ہیں تو ناں سہی کم از کم مجھے میری کامیابی پر مبارکباد تو دے ہی سکتے ھیں۔ والد نے سر اٹھا کر بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا “تم بیوقوف ہو”۔ تم سب بھائی بہنوں کو میں نے اس مقدمے سے پڑھایا لکھایا اور میں نے یہ مقدمہ تمھیں تمھارے بچوں کیلئے دیا تھا اور تم نے خود ہی اپنی آمدنی کا ذریعہ بند کردیا ھے تو بتاؤ میں تمھیں اگر بیوقوف نہ کہوں تو پھر اور کیا کہوں۔ اس قصے نے مجھے اپنی حکمران سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین ، ان کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے طرزِ عمل ، ان کے سیاسی مقاصد اور ان کی کارکردگی کے بارے میں ازسر نو جائزہ لینے ، پھر سے سوچنے اور سنجیدگی سے غور وفکر کرنے پر مجبور کر دیا ۔ کیونکہ اس قصے میں ھم جیسے سیاسی احمق کارکنان ،سیاسی جماعتوں کے حمایتیوں اور بے وقوف پاکستانی عوام کے لئے سبق ہے جو پاکستانی سیاسی جماعتوں کو ووٹ ڈالنے کی خاطر پولنگ اسٹیشنز کے باھر کئی گھنٹوں تک قطاروں میں کھڑی رھتی ھے ۔ اس امید پر ووٹ جیسی امانت ان خائن کو سپرد کرتی ہے کہ یہ جماعتیں برسراقتدار آنے کے بعد قوم کی تقدیر بدل دیں گی ۔ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا۔ کیونکہ سیاسی استحکام سے معاشی استحکام وجود میں آتا ھے ۔ عوام الناس کے ھم جیسے احمق کارکنان اور حالات سے باخبر ووٹرز اپنے ووٹ کی رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں ۔ ملک کی ترقی ، خود مختاری ، بیرونی قرضہ جات میں جکڑی ہوئی مقروض قوم اپنی خوشحالی کے سنہرے خواب اب تک دیکھتی ارھی ھے۔ 54 سال کا طویل عرصہ گزر گیا ہے لیکن ابھی تک سنہرے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے ۔ قوم کی امیدوں کے خواب نہ جانے کب پورے ھوں گے ؟ ملکی حالات کب سنوریں گے ؟ کب نیا پاکستان بنے گا؟ کب حقیقی جمہوری تبدیلی آئے گی ۔ جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ پاکستانی قوم اب باشعور ھوچکی ھے ۔ اس میں ایک نئی سوچ پیدا ہوگئی ہے ۔ لوگ ذی شعور ھو گئے ھیں ۔دراصل یہ رائے قائم کرنے والے لوگ احمقوں کی جنت میں رھتے ھیں ۔ قوم میں شعور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ھوتا ھے ۔ دنیا کے لوگ پاکستان کو شدت پسندی کا چوراھا سمجھتے ہیں ۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ھمارے ملک میں سیاسی انہتا پسندی ، اخلاقی بے راروری کو خوب فروغ ملا ھے۔ الزام تراشی، گالی گلوچ، عدم برداشت کے منفی رجحانات میں خاطر خواہ اضافہ ھوا ھے ۔ سیاسی بے قاعدگیاں ، دھاندلیاں ، بدعنوانیاں بڑھی ھیں ۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ارکان اسمبلی ترقیاتی فنڈز میں آٹھ سے دس فیصد کمیشن لیا کرتے تھے اب 40 فیصد تک بڑھ گئی ہے ۔ فرضی اور جعلی تعمیراتی کمپنیوں کو ترقیاتی کاموں کے ٹھیکہ جات دئیے جاتے ہیں ۔ ارکان اسمبلی ان سیاسی عناصر ، ان بلدیاتی نمائندوں کے سر پر اپنا دست شفقت رکھتے ہیں جو ان کی مبینہ بدعنوانیوں میں رازداری ، اعتماد و یقیں کے ساتھ ان کے لیے کام کرسکیں ۔ 8 فروری کے عام انتخابات کے دوران میرے اپنے ذاتی مشاہدات و تجربات ایسی بہت سی چیزیں دیکھنے کو ملی ھیں ۔ سیاسی کارکنان کو انتخابی دفاتر کھولنے ، اور صرف نوٹوں میں دلچسپی تھی۔ ووٹوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں تھا ۔ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے بھی ایسے سیاسی کارندوں کی خوب حوصلہ افزائی کی ، پذیرائی دی۔ اس قسم کی برائیاں ن لیگ میں اب کہ دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ دیکھی گئی ہے ۔ حالانکہ اس سیاسی جماعت میں 2022 سے پہلے نہیں پائی جاتی تھی ۔ میرے دانشور وکیل دوست نے بہت عمدہ تجزیہ کیا، ان کا کہنا تھا ک پانی بجلی، گیس، سڑکات اور اس طرح کے دوسرے بلدیاتی مسلے ، بنیادی شہری سہولیات کی کمی کے مسائل اگر فوری طور حل ہوگئے تو ھماری بازی گر سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران اپنے انتخابی حلقہ کے ووٹرز سے ووٹ کس بنیاد پر مانگیں گے؟ اس لئے عوام الناس کے درپیش مسائل جوں کے توں رکھے جاتے ہیں تاکہ عام انتخابات ، ضمنی انتخابات تواتر سے منعقد ھوتے رھیں ۔ آمدنی کا دھندہ چلتا رھے۔ اس تجزیہ نے سوجنے کے سارے انداز ھی بدل دئیے ۔ سیاسی عدم استحکام ، معاشی عدم استحکام ، پسماندگی کی جانب دھیان دینے اور اس کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مجبور کردیا ۔ اب بات سمجھ میں آنے لگی ھے کہ ھمارے ھاں سیاسی غیر یقینی ، کشیدگی ، رسہ کشی کیوں پائی جاتی ہے ۔ سیاسی انارکی پھیلتی کیوں جاررھی ھے ۔ سیاسی خلفشار ، انتشار کیوں کم نہیں ھونے پارھا ھے۔ یک بعد دیگرے قانونی و آئینی بحران گاھے بگائے کیوں پیدا ھوتے رھتے ھیں ؟ پارلیمان اور عدلیہ میں اختیارات کی جنگ کیوں اور کن مقاصد کے چھڑی رھتی ھے ۔ عدالتوں میں مقدمات درج کیوں ھوتے ہیں ؟ ھمارے جج صاحبان طاقتوروں کو خط کیوں لکھتے ھیں ؟ عدالتوں میں قانونی و دستوری تصادم لحمہ بہ لمحہ کیوں ھوتا رھتا ھے ؟ پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے سے اب تک آزاد کیوں نہیں ھو سکا ھے ؟ ھمارا حکمران ٹولہ بھیک مانگنے کے لیے کشکول کیوں اٹھاتا ہے ؟ پاکستانی قوم کا ھر بچہ بیرونی قرضہ جات ، سود کا مقروض کیوں ھے؟ ھمارا ملک آزاد ابھی تک کیوں نہیں ھوسکا ھے ؟ ھماری قوم ذھنی و فکری طور پر غلام کیوں ھے؟ ھم سامراجی قوتوں کے ابھی تک غلام کیوں ھیں ؟ سرمایہ دار استعماری طاقتوں کے جال سے نکل کیوں نہیں سکے ھیں ؟ اسٹبلشمنٹ کی داخل اندازی ، مداخلت کا رونا دھونا بار بار کیوں کیا جاتا ہے ؟ حقیقی آزادی ، حقیقی جمہوریت نظام کب رائج ھو پائے گا ؟ کب حقیقی تبدیلی آئے گی ، مداری سیاسی جماعتوں کے بازی گر قائدین کے چنگل سے یہ نادان ، غافل قوم آزاد کب ھوگی ؟ یہ مداری ، مسخرے ، سیاسی اداکار ، کب تلک تماشا کرتے رہیں گے ؟ کب تک قوم کے ساتھ مداری پن کا کھیل کھیلا جاتا رھے گا ؟ اس ملک کی اگر کوئی تقدیر بدل سکتا ھے ، حالات سنوار سکتا ہے ، ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے تو وہ قوت صرف عوام ھی ھے ۔ قوم ھی سیاسی جماعتوں کا قبلہ درست اور صحیح کرسکتی ہے ۔ عوام اپنی دوراندیشی، کڑے عوامی احتساب سے ملک میں حقیقی آزادی ، حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے ۔ صرف عوام اور صرف عوام ۔ کیونکہ قوت کا سر چشمہ عوام ھے۔
More Stories
کارخانہ بازار گلی نمبر3(امین بٹ والی گلی)میں تجاوزات کی بھر مار
ی لاسال برادرز کے تحت چلنے والے سکولز و کالجز میں پرنسپل اور ایڈمنسٹریٹرز کے تقرر و تبادلے
عید کا رش ، بازاروں میں خواتین کے تحفظ کیلئے وویمن پولیس فورس تعینات